صدف شاھد
Wednesday, 1 February 2017
سُلجھا اور با شعور مرد
ھر سُلجھا اور با شعور مرد عورت کو عزت بھی دیتا ہے اور احترام بھی۔۔۔پھر وہ چاھے باپ ہو، بھائی ہو،شوہر یا بیٹا..رشتے آپسی سمجھ سے مستحکم ہوتے ہیں ۔۔۔۔...مخلص رشتوں میں سودے بازی نہیں ہوتی ،جس سے عورت کا جس رُوپ میں رشتہ جُڑتا ہے اُس سے وابستہ ہر شے سے خود بہ خود اُنسییت اور اُلفت ہو جاتی ہے،دل خود بڑھ کر اُس کی پذیرائی کرتا ہے اُس سے منسوب رفاقتوں کو بخوشی گلے لگاتا ہے۔۔۔آپ خود مشاہدہ کر سکتے ہیں بچپن میں دی گئی تربیت کی بِنا پر بیٹی ماں باپ کی آنکھوں کا تارا ہوتی ہے، با حیا اور با کرداربہن کی محبت بھائی کا سرمایہ ہے، شوہر مُخلص بیوی کی رفاقت پر ناز کرتا ہے اور جب ماں بنتی ہے تو عورت ہستی بن جاتی ہے جسکی عظمت کو ہر کوئی سلام کرتا ہے۔عورت کا اصل تو اُس کا گھر اور خاندان ہے اور اُس کی جان اُس سے منسلک رشتوں میں ہے جن کو وہ تسبیح کے دانوں کی طرح مقدس مانتی ہے اور تسبیح کا ہر دانہ اُس کے لیے اپنا اپنا مقام اور اہمیت رکھتے ہیں جن کی ایکتا بنی رہے اور اُنکو یکجا رکھنے میں اُسکی ساری عمر گزر جاتی ہے ۔۔
کبھی چھوٹی بچیوں کو کھیلتے دیکھئیے گا وہ گھر گھر کا کھیل بڑے شوق سے کھیلتی نظر آئیں گی جبکہ لڑکوں میں یہ رُحجان نظر نہیں آئے گا۔۔۔۔عورت کی تو گُھٹی میں اللہ پاک نے تربیت دینا اور تربیت کرنا رکھا ہے،سجانا سنوارنا ،سلیقہ و طریقہ اُسکا مزاج بنا دیا ہے۔.اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی،۔۔اور اس سے زیادہ کیا چاہنا پھر....
ماں رشتوں کو جوڑنا سکھاتی ہے تو والد رشتوں کو ساتھ لے کر چلنا، اس طرح مل ملا کر ھی گھر بستے اور چلتے ہیں ...پر گھر کو گھر عورت ہی
بناتی ہے اور گھر کا چلنا دونوں کے باھمی تعاون پر انحصار کرتا ہے۔۔۔کہ وہ کتنا
قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلتے ہیں۔۔۔۔۔۔
صدف شاھد
آؤ بھلائی کی طرف
آؤ بھلائی کی طرف۔۔۔۔۔۔۔
اللہ رب العزت نے اس کائنات میں جو بھی منصوبہ مکمل کرنا ہوتا ہے اُسے بندوں کے ہا تھوں تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔۔ احکامات الٰہیہ اگرچہ ہمارے نفسوں پر گراں گزررہےہوں مگر ان کی اتنی ہی خیر کیا ھمارے لیے کافی نہیں کہ ہمارے رب نے وہ ہم سے چاہے ہیں۔۔۔۔
اک خیال،سوچ جو ہر لمحہ ذہن پر چھائی رھتی ہے اور یہ اذیت ناک تب ہوتی ہے جب بہت سے اعمال اپنے اِرد گرد اور اپنی ہی ذات سے اس سوچ کے برعکس وقوع پذیر ہوتے ہیں۔۔۔۔۔
کہ
اللہ بھی وُہی،اللہ کا نبی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی وُہی،اللہ کی کتاب (قرآن پاک )بھی وُھی......دینی تعلیمات بھی وھی۔۔۔۔
یہ زمین،آسمان،پھل،پھول،یہ چاند اور تارے،یہ سورج کی کرنیں ،موسم کی حدتیں،پانی کی فراوانیاں۔۔۔پرندوں کی بولیاں۔۔۔۔
سب وہی ہیں۔۔۔۔۔۔
پر ہم ویسے کیوں نہیں؟
ھم اسے کیا نام دیں بے بسی یا سر کشی۔۔۔۔۔؟
ہماری تڑپ ویسی کیوں نہیں ہے اپنے خالق کی طرف۔۔۔۔۔
حق ،ایمان والوں کی طرح۔۔۔
ہماری محبتیں ویسی بے غرض کیوں نہیں ہیں؟
ذرا تصور میں لائیے۔۔۔
صداقت صدیق رضی اللہ عنہ جیسی۔۔۔۔
محبت و خلافت عمر رضی اللہ عنہ جیسی۔۔۔۔
اطاعت و جراءت علی رضی اللہ عنہ جیسی۔۔۔۔
حیاء و سوچ عثمان رضی اللہ عنہ جیسی۔۔۔۔
لگن ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جیسی۔۔۔۔
جستجو سلمان فارسی رضی اللہ عنہ جیسی۔۔۔۔
اذان بلال رضی اللہ عنہ جیسی۔۔۔۔
ایمان حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا جیسا۔۔۔۔۔
رفاقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جیسی۔۔۔۔
ایثار سودہ رضی اللہ عنہا جیسا۔۔۔
خیرات زینب رضی اللہ عنہا جیسی۔۔۔۔۔
سادگی فاطمہ رضی اللہ عنہا جیسی۔۔۔
اولاد حسن رضی اللہ عنہ،حسین رضی اللہ عنہ جیسی۔۔۔۔۔
کیا ھم اُن جاں نثاروں کی پیروی نہیں کر سکتے جو ھمارے لیے جیتی جاگتی،روشن مثالیں رقم کر گئے عملی صورت میں ....کہ ھماری تربیت ہو سکے۔۔...جن کا اُسوہءِ حسنہ،طریقہء زندگی ھمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔۔۔۔۔ھم پھر بھی بھٹکے ہوئے ہیں ۔۔۔تاریکیوں کے رستوں پر گامزن ہیں جس کی منزل گہری کھائیاں ہیں۔۔۔۔۔
ھمارا بچاؤ ،ھمارا دفاع کرنے والا ماسوائے ھمارے خود کے کوئی نہیں۔۔۔۔۔
آئیے اپنا دفاع کریں یہ عہد لے کر۔۔۔
کہ
اللہ تعالٰی نے میرے اندر محبت و اخلاص کی خوشبو رکھی ہے میں کیوں نفرت و بغض کی مہک پھیلاؤں۔۔۔
اللہ تعالٰی نے میرے اندر اُمید کی جَوت جلا رکھی ہے میں کیوں کوشش کے دِیے بُجھاؤں۔۔۔
اللہ تعالٰی نے میرے اندر صبر کا شجر لگا رکھا ھے میں کیوں جلد بازی، عجلت کا پھل کھاؤں۔۔۔
اللہ تعالٰی نے مجھے ظرف کی وسعتوں سے نوازا ہے میں کیوں تعصب و حقارت کا قیدی بنوں .....
اللہ تعالٰی نے مجھے سراہنے کی ٹھنڈک سے نوازا ہے میں کیوں حسد کی آگ میں جلوں۔۔۔
اللہ تعالٰی نے مجھے مسرتوں، دعاؤں کی سخاوت سے نوازا ھے میں کیوں تھُڑدلی ،بدگمانی کےافلاس کا شکار ہوں
اللہ تعالٰی نے مجھے جن گُنوں /ہنر سے نوازا ھے میں اُنکے صَرف میں کاھلی کیوں بَرتوں۔۔
اللہ تعالٰی نے مجھے درگزرر اور معافی جیسا طرز نوازا ہیے میں کیوں انتقام و بدلہ کی روش اختیار کروں۔۔۔۔
اللہ تعالٰی نے مجھے الفاظ کے مرھم سے نوازا ہے میں کیوں چھُری کی دھار بنوں۔۔۔۔۔
اللہ تعالٰی نے مجھے جوش و جذبے سے، مسلسل جدو جہد سے ھر کٹھنائی کا سامنا کرنےکی قوت عطا کی ہے میں پھر کیوں حالات و واقعات کو پیٹھ دکھاؤں۔۔۔۔
اللہ تعالٰی نے مجھے صراطِ مسقیم پر چلنے کی منشا کا اختیار دیا ہے میں کیوں وسوسوں اورغفلت کے بھول بھولیوں میں بھٹکوں۔۔۔۔
جن اختیارات کے بیج رب نے میرے اندربو دیے ہیں ۔اب انکی نشو ونما میری ذمہ داری ہے۔۔ ۔تو پھر
اے میرے مالک میں ان اختیارات کی افزائش و بڑھوتری میں ہر قسم کی بخیلی سے پناہ مانگتی ہوں۔/پناہ مانگتا ہوں ۔۔مجھے خیر کے پودے اُگانے کی توفیق عطا کر دے....میرا وجود ایساپھلدار شجر بنے جو منافع بخش ہو میرے اپنے لیے ،دوسروں کے لیے۔۔۔۔۔۔ سیر کرے تیری رحم و کرم کی طبیعت کو...میری آخرت کی کھیتی لہلہلاتی رھے مولا تیری نوازشوں کی زرخیزی سے...آمین
صدف شاہد
Subscribe to:
Posts (Atom)